بائبل یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ خُدا کا انسان کے ساتھ ایک منفرد رابطہ ہے۔ کروڑوں لوگوں کی زندگی کی بنیاد اِس کے پیغام پر ہے۔ لاکھوں لوگوں نے اس پر اپنی جان نثار کی۔
کیا ایک سمجھدار شخص بائبل پر یقین کر سکتا ہے؟
ہاں! بائبل کوئی فرضی کہانیوں کی کتاب نہیں۔ دیگر روحانی کتب کی طرح یہ اندھے ایمان کا تقاضا نہیں کرتی۔ مختلف اقسام کے شواہد اس کے تاریخی اعتبار سے درست ہونے میں مدد دیتے ہیں اور اس کے کلام خُدا ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔
بائبل یہ بیان کرتی ہے کہ یسوع ناصری نے بہت سے معجزات کئے، اُسے رومیوں نے مصلوب کیا اور وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ جملہ قدیم تاریخ دان یسوع اور اُس کے شاگردوں کے متعلق بائبلی واقعات کی توثیق کرتے ہیں۔
کرنیلیس ٹیسی ٹس (120-55، پہلی صدی روم کا تاریخ دان) قدیم زمانہ کا سب سے معتبر تاریخ دان تصور کیا جاتا ہے ٹیسی ٹس کے ایک اقتباس میں ہم یہ پڑھتے ہیں کہ روُمی شہنشاہ نیرو نے ’’ایک جماعت کو بہت زیادہ اذیت دی یعنی کِرسٹس (مسیحی) جس سے اِن کے نام کا آغاز ہوا اُنہوں نے تِبریاس کے دورِ حکومت میں ہمارے ایک حاکم پنطس پیلاطس کے ہاتھوں بہت سی سزائیں برداشت کیں۔‘‘
فلیوئیس جوزفس (100-38) ایک یہودی تاریخ دان نے اپنی کتاب ’’یہودی آثارِ قدیمہ‘‘ میں یسوع کے متعلق لکھا۔ جوزفس سے ہم سیکھتے ہیں کہ ’’یسوع ایک عقلمند انسان تھا جس نے حیران کُن کرتب دکھائے، بہت سے لوگوں کو سکھایا، یہودی اور یونانی پیروکار بنائے، اِسے مسیحا تصور کیا گیا، یہودیوں کی طرف سے اُسے مجرم ٹھہرایا گیا، پیلاطُس کی طرف سے اُسے صلیب دی گئی اور یہ سمجھا گیا کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا۔‘‘
سوئی ٹونئیس، پلائی نی داینگر اور تھالُس نے بھی مسیحی عبادت اور اذیت کے متعلق لکھا جو کہ نئے عہدنامہ میں مندرج واقعات سے ہم آہنگ ہے۔
یہودی تالمود نے بھی یسوع کے متعلق لکھتے ہوئے تعصب سے کام نہ لیا، وہ بھی یسوع کی زندگی کے اہم واقعات سے متفق ہے۔ تالمود سے ہم سیکھتے ہیں، ’’یسوع شادی کے بندھن سے پیدا ہوا، اُس نے شاگرد بنائے، اپنے بارے میں کافرانہ دعوے کیے، معجزات کیے لیکن ان کا تعلق جادوگری سے ہے نہ کہ خُدا سے۔‘‘
یہ ایک شاندار معلومات ہے کہ زیادہ تر قدیم تاریخ دانوں کی تحریر کا مرکز رومی سلطنت کے دور دراز صوبوں میں رہنے والے ربی نہیں بلکہ سیاسی اور عسکری رہنما تھے۔ اس کے باوجود قدیم (یہودی، یونانی اور رومی) تاریخ دان نئے عہد میں مندرج چیدہ چیدہ واقعات کی تصدیق کرتے ہیں اگرچہ وہ خود ایماندار نہ تھے۔
دنیاوی تاریخ دانوں نے تو صرف یسوع کی زندگی کے متعلق عام حقائق کو درج کیا لیکن اُس کے قریبی ساتھیوں نے براہ راست آنکھوں دیکھے شواہد پر مبنی بیانات کوتحریر کیا۔ یہ نئے عہدنامہ کی پہلی چار کتابیں ہیں جو چار اناجیل کہلاتی ہیں۔ ہم یہ کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ یسوع کی یہ سب سوانح حیات درست ہیں؟
جب تاریخ دان کسی سوانح عمری کے مستند ہونے کے متعلق معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ یہ سوال پوچھتے ہیں، ’’کتنی زیادہ دیگر تحریریں اس شخص کے متعلق ملتی جلتی معلومات مہیا کرتی ہیں؟‘‘ آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے عمل میں آتا ہے۔ فر ض کریں کہ آپ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی سوانح عمری اکٹھی کر رہے ہیں۔ آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اس کے خاندان، صدارت، کیوبن میزائل بحران سے نمٹنا کو بیان کیا اور تقریباً ہر سوانح عمری نے ملتے جلتے حقائق بیان کیے۔ لیکن ایک سوانح عمری یہ بیان کرتی ہوئی آپ کے سامنے آتی ہے کہ جان ایف کینیڈی دس سال بطور پادری جنوبی افریقہ میں مقیم رہا؟ دوسری سوانح عمری میں تو وہ اس وقت امریکہ میں تھا اس لئے ایک عقلمند تاریخ دان اُن سوانح عمری سے اتفاق کرے گا جو ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔
کیا ہمیں ایسی سوانح عمری ملتی ہیں جو یسوع ناصری کے متعلق یکساں حقائق بیان کرتی ہیں؟ ہاں۔ چاروں اناجیل میں اضافی معلومات اگرچہ ایک جیسی نہیں لیکن اصل میں کہانی ایک ہی ہے:
متی اور یوحنا رسولوں نے دو اناجیل تحریر کیں جو شخصی طور پر یسوع کو جانتے تھے اور جنہوں نے تین سال تک اُس کے ساتھ سفرکیا۔ دوسری دو اناجیل مرقس اور لوقا نے لکھیں جو رسولوں کے قریبی ساتھی تھے۔ جن حقائق کو یہ مصنف درج کر رہے تھے اُن تک اِن کی براہ راست رسائی تھی۔ ابتدائی کلیسیا نے چاروں اناجیل کو قبول کیا کیونکہ وہ یسوع کی زندگی کے متعلق عام معلومات سے پہلے ہی واقف تھے۔
چاروں اناجیل کے مصنفین کے تفصیلی بیانات درج کیے ۔ جیسا کہ آپ ایک حقیقی شخص کی مختلف سوانح حیات سے توقع کر سکتے ہیں، اِن کے طرزِ تحریر میں تو تنوع ہے لیکن حقائق میں اتفاق رائے موجود ہے۔ مصنفین محض کہانیاں ایجاد نہیں کر رہے تھے کیونکہ اناجیل میں مخصوص جغرافیائی نام اور ثقافتی تفصیل درج ہے جن کی علمِ آثار قدیمہ کے ماہرین اور تاریخ دان تصدیق کر چکے ہیں۔
یسوع کے مندرج کردہ الفاظ میں سے بہت سے عنوانات حذف کر دیئے گئے جن پر ابتدائی کلیسیا نے کوئی سوال نہ اُٹھایا۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سوانح نگار دیانتدار تھے اور انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر یسوع کے الفاظ میں بے جا اضافہ نہ کیا۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نئے عہدنامے کا ’’اتنی دفعہ‘‘ ترجمہ کیا گیا کہ یہ ترجمہ کرنے کے مراحل کے دوران ہی مسخ کر دیا گیا۔ اگر یہ تراجم دوسرے تراجم سے کیے جاتے تو یہ معاملہ سچ ہو سکتا تھا۔
لیکن تراجم دراصل براہ راست اصل عبرانی، یونانی اور آرامی عبادتوں کی بنیاد پر ہزاروں قدیم مسودات سے کئے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ جو نیا عہدنامہ آج ہمارے پاس ہے وہ اپنی اصل حالت میں ہے کیونکہ:
1 - ہمارے پاس مسودات کی کاپیاں 24,000 سے زائد ہیں۔
2 - ان کاپیوں کو آپس میں لفظ بہ لفظ ملایا گیا اور یہ 99.5 فیصد درست ہیں۔
3 - ان مسودات کی تواریخ اصل مسودات کی تواریخ سے قریب تر ہیں۔
جب کوئی شخص ایک مسودہ کو کسی دوسرے مسودہ سے ملاتا ہے۔ تو ان کا میل حیران کن ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر اِملا میں اختلاف یا ترتیب میں ردوبدل ہے لیکن یہ بالکل معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پرنسٹنن تھیالوجیکل سیمنری میں اعزازی پروفیسر بروس ایم میٹسگر لفظوں کی ترتیب کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ’’اگر آپ انگریزی میں کہیں ’کتے نے آدمی کو کاٹا‘ یا ’آدمی نے کتے کو کاٹا‘ تو ان جملوں کے مفہوم میں بہت فرق آ جائے گا۔ لیکن یونانی میں ایسا نہیں ہے ۔ ایک لفظ ترتیب میں بطور فاعل کام کرتا ہے بالحاظ وہ ترتیب میں کہیں بھی آتا ہو۔‘‘
آکسفورڈ یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر ڈاکٹر روی زکریا بھی بیان کرتے ہیں: ’’اصطلاحی لحاظ سے، دستاویزات کی مکمل تعداد کے لحاظ سے، دستاویزات اور واقعات کے مابین دورانیے کے لحاظ سے اور اتفاق کرنے اور تردید کرنے کے لئے مختلف دستاویزات کی دستیابی کے لحاظ سے نیا عہدنامہ ایک بہترین تصدیق شدہ قدیم تحریر ہے۔ کوئی ایسی قدیم مسوداتی شہادت نہیں جو اس طرح کی درسی دستیابی اور دیانتداری کا مقابلہ کر سکے۔‘‘
نیا عہدنامہ بنی نوح انسان کی سب سے زیادہ معتبر، قدیم تحریر ہے۔ اس کی تحریری دیانتداری افلاطون کی تحریروں اور ہومر کی ایلیڈ سے زیادہ قابل بھروسہ ہے۔
پرانے عہدنامے کو بھی شاندار انداز سے محفوظ کیا گیا ہے۔ ہمارے جدید تراجم عبرانی اور یونانی کے قدیم مسودات کی ایک بہت بڑی تعداد (جن میں بیسویں صدی کے بحیرہ مُردار کے طوماروں کی دریافتیں بھی شامل ہیں) سے تصدیق شدہ ہیں۔ ان طوماروں میں پُرانے عہدنامے کی تقریباً سب کتب کے قدیم ترین حصے شامل ہیں جن کی تاریخ 150ق۔ م ہے۔ بحیرہ مردار کے مسودوں کی ہزار سال بعد ہاتھ سے لکھی گئی نقلوں سے مماثلت اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم عبرانی فقیہ صحیفوں کو تحریر کرتے وقت کتنے محتاط ہوتے تھے۔
علمِ آثار قدیمہ یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ بائبل ہمارے لئے خُدا کی لکھی ہوئی تحریر ہے۔ تاہم علمِ آثارِ قدیمہ بائبل کی تاریخی درستی کے متعلق حقائق پیش کر سکتا ہے (اور کرتا ہے)۔ ماہرین علم آثار قدیمہ بائبل میں متذکرہ افسران شاہی، بادشاہ، شہروں اور تہواروں کے ناموں کو مسلسل دریافت کرتے رہے ہیں۔ یعنی اس وقت جب تاریخ دان یہ خیال کرتے کہ اِن جگہوں اور لوگوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ مثال کے طور پر یوحنا کی انجیل یہ بیان کرتی ہے کہ یسوع نے بیت حسدہ کے تالاب کے سامنے ایک لنگڑے کو شفا دی۔ عبارت میں تالاب کی طرف جانے والے پانچ راستوں کا بھی بیان ہے۔ محققین نے اس تالاب کے وجود کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جب تک ماہرین علم آثار قدیمہ نے اسے 40فٹ گہرائی میں 5راستوں کے ساتھ دریافت نہ کر لیا۔
بائبل مقدس میں تاریخ کی ایک لمبی تفصیل موجود ہے جسے آثار قدیمہ ابھی تک نہیں ڈھونڈ سکا۔ تاہم بائبل میں جو کچھ بھی درج ہے علم آثار قدیمہ کی کسی بھی دریافت کا اُس سے اختلاف نہیں۔
اس کے برعکس نیوز رپورٹر لی سٹروبل مارمن کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’علم آثار قدیمہ امریکہ میں ایک عرصہ پہلے پیش آنے والے واقعات کے متعلق اس کے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے میں بار بار ناکام ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے سمتھ سونئین انسٹیٹیوٹ کو یہ دریافت کرنے کے لئے لکھا، آیا کہ مارمونزم کے دعوؤں کی مدد کرنے کیلئے کوئی گواہی ہے، مجھے مبہم انداز میں یہ جواب ملا کہ نئی دنیا کے علم آثار قدیمہ اور اس کتاب کے متن میں اُن کے علم آثار قدیمہ کے ماہرین کوئی براہ راست رابطہ نہیں پاتے۔‘‘ مامون کی کتاب میں درج شہروں، انسانوں، ناموں اور جگہوں کے ماہرین علم آثار قدیمہ کبھی نہیں ڈھونڈ سکے۔
اس کے مقابلہ میں لوقا نے نئے عہدنامہ میں اعمال کی کتاب میں جتنی قدیم جگہوں کا ذکر کیا علم آثار قدیمہ نے ان سب کو دریافت کر لیا ہے۔ مجموعی طور پر لوقا نے بتیس ملکوں، چوون شہروں اور نو جزیروں کے ناموں کو بغیر کسی غلطی کے بیان کیا۔
علم آثار قدیمہ نے بائبل کے متعلق بہت سے بے بنیاد نظریات کو بھی رد کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک نظریہ ابھی تک کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ موسیٰ نے پیناٹیوک (بائبل کی پہلی پانچ کتب) کو تحریر نہیں کیا ہو گا کیونکہ اس کے دور میں لکھنا دریافت نہیں ہوا تھا۔ پھر علم آثار قدیمہ نے بلیک سٹیل کو دریافت کیا۔’’اس کے الفاظ میخوں کی طرح نوکیلے تھے اور ان میں ہامورابی قوانین کی مکمل فہرست شامل تھی۔ کیا یہ بعدازموسی ٰ تھیں؟ نہیں، یہ نہ صرف قبل از موسیٰ بلکہ ابرہام سے بھی پیشتر تھیں (2000 ق۔ م) یہ موسیٰ کی تحریروں سے تین ہزار سال پرانی تھیں۔‘‘
1974 میں شمالی شام میں علم آثار قدیمہ کی ایک اوربڑی دریافت حروف تہجی کی تختیاں سامنے آئیں جن پر ابتدائی حروف ملنے کی تصدیق کی گئی۔ یہ 14000مٹی کی تختیاں ابرہام سے سینکڑوں سال قبل 2300ق ۔ م کی تصور کی جاتی ہیں۔ ان تختیوں میں وہ ثقافت پائی جاتی ہے جس کا ذکر پیدائش 15-12 ابواب میں کیا گیا ہے۔
علم آثار قدیمہ مسلسل بائبل کی صداقت کی تصدیق کرتا رہا ہے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بائبل اختلافات سے بھری پڑی ہے جو کہ سچ نہیں ہے۔ بظاہر جو اختلافات نظر آتے ہیں وہ بائبل کے جیسا حجم اور وسعت رکھنے والی کتاب کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ تضادات کسی غلط فہمی کی بجائے تجسس کا باعث ہیں۔ یہ کسی بڑے واقع یا ایمان کے مضمون میں نہیں ہیں۔
آیئے ان برائے نام اختلافات کی چند ایک مثالیں دیکھتے ہیں۔ پیلاطس نے یہ حکم جاری کیا کہ یسوع کو جس صلیب پر چڑھایا گیا تھا اُس پر ایک تختی لگا دی جائے۔ تین اناجیل میں درج ہے کہ اس تختی پر لکھا گیا تھا:
متی کی انجیل میں: یہ یہودیوں کا بادشاہ یسوع ہے۔
مرقس کی انجیل میں: یہودیوں کا بادشاہ۔
یوحنا کی انجیل میں: یہودیوں کا بادشاہ۔ یسوع ناصری
ان تینوں حوالہ جات میں لفظی تکرار ہی اصل میں بظاہر اختلاف ہے۔ اس میں شاندار بات یہ ہے کہ تینوں مصنف ایک ہی واقعہ کو مفصل بیان کرتے ہیں یعنی یسوع کو مصلوب کیا گیا ۔ اس بات پر سب متفق ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ صلیب پر ایک تختی لگا دی گئی اور اس تختی پر لکھی تحریر کا مطلب تینوں حوالوں میں ایک ہی ہے۔
صحیح الفاظ کے چناؤ کے متعلق کیا خیال ہے؟ اصلی یونانی زبان میں واوین کو استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ دور حاضر میں ہم روایت لفظی بیان کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ انجیل کے مصنفین روایت معنوی استعمال کر رہے تھے جس سے عبارت میں خفیف سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
آیئے بظاہر اختلاف کی ایک اور مثال پر غور کرتے ہیں۔ کیا یسوع اپنے جی اُٹھنے سے قبل دو دن یا تین دن قبر میں رہا؟ یسوع نے اپنی مصلوبیت سے پیشتر یہ فرمایا، ’’کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘۔ (متی 14:12 ) مرقس نے یسوع کے ایک اور بیان کو درج کیا ، ’’دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابن آدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُس کے قتل کا حکم دیں گے اور اسے غیرقوموں کے حوالہ کریں گے۔ اور وہ اسے ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے اور اس پر تھوکیں گے اور اسے کوڑے ماریں گے اورقتل کریں گے اور تین دن کے بعد وہ جی اُٹھے گا‘‘۔ (متی33:10-34)
یسوع بروز جمعہ قتل کیا گیا اور اُس کے جی اُٹھنے کے متعلق اتوار کو دریافت ہوا۔ اس طرح وہ تین دن اور رات کیسے قبر میں رہا؟ دن یا رات کے کسی بھی پہر کو پورا دن اور رات کہنا یسوع کے زمانے کے یہودیوں کے کلام کا جزو تھا۔ پس یسوع کے زمانہ میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو تین دن اور رات کہا جا سکتا تھا۔ آج کل ہمارا اندازِ بیان بھی ایسا ہی مثلاً اگر کوئی شخص کہے، ’’آج میں نے سارا دن خریدوفروخت کی‘‘ ہم سمجھ جائیں گے کہ اس کا مطلب 24گھنٹے یعنی پورا دن نہیں ہے۔
نئے عہدنامہ میں بظاہر اختلافا ت کے متعلق یہ مخصوص مثالیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو عبارت کا بغور مطالعہ کرنے یا تاریخی پس منظر پر غور کرنے سے حل ہو جاتے ہیں۔
موجودہ نئے عہدنامے کی فہرست پر یقین کرنے کی چند ایک ٹھوس وجوہات ہیں ۔ نئے عہدنامہ کی کتابیں جب لکھی گئیں تو کلیسیا نے فوراً انہیں قبول کر لیا۔ یسوع نے ابتدائی کلیسیا کو جن کے حوالہ کیا وہ یا تو یسوع کے براہ راست شاگرد تھے یا پھر آگے اُن کے شاگرد تھے۔ انجیلی مصنفین میں متی اور یوحنا یسوع کے قریب ترین پیروکار تھے۔ مرقس اور لوقا رسولوں کے ساتھی تھے اور اُن ہی کی مدد سے انہوں نے یسوع کی حیات کے متعلق جانا۔
نئے عہدنامہ کے چند دوسرے مصنفین بھی یسوع سے براہ راست واقف تھے: یعقوب اور یہوداہ یسوع کے سوتیلے بھائی تھے جو شروع میں اُس پر ایمان نہ لائے۔ پطرس بھی 12رسولوں میں سے ایک تھا۔ پولس پہلے تو مسیحیت سے بے زار تھا لیکن جب اسے مسیح کی رویا مل گئی تو وہ بھی ایک رسول بن گیا۔ اس کے دوسرے حواریوں سے روابط بھی تھے۔
ہزاروں شاہدین کی مدد سے نئے عہدنامہ کی فہرست کو مرتب کیا گیا۔ سینکڑوں سال بعد جب دوسری کتاب (مثلاً یہوداہ کی انجیل جسے ناستک فرقے نے یہوداہ کی موت کے ایک عرصہ بعد 170 - 130 میں تحریر کیا) کو فوراً جعلی قرار دینا کلیسیاکے لئے مشکل نہ تھا۔ توما کی انجیل کو 140 کے دوران تحریر کیا گیا جو کہ جعلی تحریر کی ایک اور مثال ہے جسے غلطی سے رسول کا نام دے دیا گیا یہ اور دیگر ناستک تحریریں یسوع کی تعلیم اور پرانے عہدنامے سے اختلاف رکھتی ہیں اور عموماً ان میں جغرافیائی اور تاریخی اغلاط ہیں۔
367 میں ایتھنیشیس نے رسمی طور پر نئے عہدنامہ کی 27کتابوں کی فہرست تیار کی (وہی فہرست جو ہمارے پاس آج ہے)۔ جلد ہی جیرون اور آگسسٹن نے اسی فہرست کی اشاعت کر دی۔ تاہم زیادہ تر مسیحیوں کیلئے یہ اشاعت ضروری نہ تھی کیونکہ مجموعی طور پر پوری کلیسیا نے اسے قبول کر لیا اور پہلی صدی میں مسیح کے صعود کے بعد کتابوں کی اسی فہرست کو استعمال کیا ۔ جب کلیسیانے یونانی لسانیات کی سرزمین سے باہر پھیلنا شروع کیا تو اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت درپیش آئی۔ اور جب فرقوں میں اُن کی مقدس کتب کے حوالے سے پھوٹ پڑتی گئی تو ایک حتمی فہرست کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔
یسوع مسیح کی موت اور جی اُٹھنے کے فوراً بعد انجیلی بیانات کو تحریر نہ کرنے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح کی تحریروں کی بظاہر کوئی ضرورت نہ تھی۔ یروشلیم میں ابتدائی دور میں انجیل کو زبانی پھیلایا گیا۔ وہاں یسوع مسیح کی زندگی پر تحریری بیان اشاعت کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ یروشلیمی خطے کے باشندے یسوع کے گواہ تھے اور اُس کی منادی کو بھی اچھی طرح جانتے تھے۔
تاہم انجیل کے یروشلیم سے باہر پھیلنے کے بعد جب عینی شاہدین تک باآسانی رسائی نہ ہو سکی تو دوسرے لوگوں کو یسوع مسیح کی زندگی اور منادی کے متعلق سکھانے کیلئے تحریری بیانات کی ضرورت پڑی ۔ بہت سے محققین اناجیل کی تحریر کی تاریخ یسوع کی موت کے 30سے 60سال کے درمیان بیان کرتے ہیں۔
لوقا اپنی انجیل کے آغاز میں یہ کہہ کر کہ وہ کیوں اس کو تحریر کر رہا ہے ہمیں مزید اس کا ادراک بخشتا ہے: ’’چونکہ بہتوں نے اس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں اُن کو ترتیب وار بیان کریں۔ جیسا کہ انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کے خادم تھے اُن کو ہم تک پہنچایا۔ اس لئے اے معزز تھیفلس میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے اُن کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں۔‘‘
یوحنا بھی اس انجیل کو لکھنے کی وجہ بیان کرتا ہے: ’’اور یسوع نے اور بہت سے معجزے شاگردوں کے سامنے دکھائے جو اس کتاب میں لکھے نہیں گئے۔ لیکن یہ اس لئے لکھے گئے کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خُدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پاؤ‘‘۔
اگر آپ یسوع کے متعلق مزید جاننا چاہتے ہیں تو یہ مضمون آپ کے لئے اُس کی زندگی کا ایک بہتر خلاصہ پیش کرے گا: ’’اندھے اعتقاد سے پرے‘‘۔
ہاں!اگر ایمان نے کوئی قدروقیمت حاصل کرنی ہے تو اسے حقائق اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہئے۔ آیئے اس بات کی وجہ دیکھتے ہیں۔ اگر آپ لندن کی پرواز لے رہے ہوں تو آپ کا ایمان ہو گا کہ طیارہ ایندھن سے بھرا ہے، تکنیکی لحاظ سے قابل بھروسہ ہے، اُس کا پائلٹ تربیت یافتہ ہے اور اُس میں کوئی دہشت گرد سوار نہیں ہوا۔ تاہم آپ کا ایمان آپ کو لندن تک نہیں پہنچائے گا۔ آپ کا ایمان اس حد تک کارآمد ہے کہ اس نے آپ کو طیارے تک پہنچا دیا ۔ لیکن درحقیقت طیارے اور پائلٹ کی مہارت ہی آپ کو لندن تک پہنچائے گی۔ آپ پروازوں کے متعلق اپنے معاضی کے مثبت تجربات پر بھروسہ کر سکتے ہیں ۔ لیکن آپ کا مثبت تجربہ بھی اُس طیارے کو لندن پہنچانے کیلئے کافی نہ ہو گا۔‘‘ جو چیزاہمیت رکھتی ہے وہ آپ کے ایمان کا ہدف ہے کیا یہ قابل بھروسہ ہے؟
کیا نیا عہدنامہ یسوع کی ایک درست اور قابل بھروسہ پیش کش ہے؟ ہاں! ہم نئے عہدنامے پر بھروسہ کر سکتے ہیں کیونکہ اسے حقائق کا بہت بڑا سہارا حاصل ہے۔ اس مضمون نے درج ذیل نکات بیان کیے: تاریخ دان اور ماہر آثارِ قدیمہ اس سے اتفاق کرتے ہیں، چاروں اناجیل کی سوانح حیات آپس میں متفق ہیں، دستاویز کی نقلوں کی حفاظت شاندار ہے، تراجم میں عمدہ درستگی ہے۔ ہم نئے عہدنامے میں جو کچھ پڑھتے ہیں یہ سب ہمیں اس پر یقین کرنے کیلئے مضبوط بنیاد بخشتا ہے یعنی یسوع ہی خُدا ہے، اس نے ہمارے گناہوں کی قیمت ادا کی اور وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا۔
◄ | خُدا کو کیسے جانیں ۔۔۔ |
◄ | اگر آپ کوئی سوال پوچھنا یا اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔ |